1. Inhalt
  2. Navigation
  3. Weitere Inhalte
  4. Metanavigation
  5. Suche
  6. Choose from 30 Languages

حالات حاضرہ

’ڈیورنڈ لائن‘کا تنازعہ ایک بار پھر زیر بحث

پاکستان اور پڑوسی ملک افغانستان کے درمیان ایک صدی سے بھی زائد عرصہ قبل قائم کی گئی سرحدی پٹی ’ڈیورنڈ لائن‘کا تنازعہ آجکل ایک مرتبہ پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔

افغانستان نے امریکی نمائندہ خصوصی مارک گراسمین کےگزشتہ ہفتے دیے گئے ایک انٹر ویو اور دفتر خارجہ کے ان بیانات پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے جن میں ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد قرار دیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان نے ان امریکی بیانات کو خوش آئند اور درست نقطہ نگاہ قرار دیا ہے۔

برطانوی حکمرانوں کی طرف سے برٹش انڈیا کے دور میں 1893 ء میں ڈیورنڈ لائن قائم کی گئی تھی۔ تاہم 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد یہی ڈیورنڈ لائن پاک افغان سرحد کہلائی۔ لیکن افغانستان نے کبھی بھی اس ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد قبول نہیں کیا۔ افغان صدر کے ایک ترجمان نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ ڈیورنڈ لائن سے متعلق امریکی بیانات اس معاملے میں افغانوں کی سوچ تبدیل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ حکومتوں نے نہیں بلکہ افغان عوام نے کرنا ہے۔

ادھر پاکستانی دفتر خارجہ نے ڈیورنڈ لائن پر افغان موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ'' ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ہو چکا ہے نہ صرف پاکستان اپنے اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتا ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اسے بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتے ہیں۔‘‘

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر دونوں طرف سے کڑی نظر رکھی جاتی ہے

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پر امریکہ اور پاکستان کے موقف میں ہم آہنگی خطے میں ایک دیرینہ تنازعے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے افغان امور کے ماہر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ڈیورنڈ لائن پر حالیہ بیانات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء سے قبل دیگر اہم مسائل کا حل چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ

''امریکہ اس خطے میں اس طرح کے تنازعات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا کہ یہاں پر ایک نیا تنازعہ پیدا ہو اور وہ بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہو۔ اس لیے امریکہ نہیں چاہتا کہ کوئی تنازعہ ہو۔ انہوں نے ممکن ہے کہ پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی ایسا کہا ہو۔‘‘

واضح رہے کہ تقریباً ساڑھے سولہ سو کلو میٹر طویل ڈیورنڈ لائن کے آر پار رہنے والے پشتون قبائل کی آپس میں نہ صرف قریبی رشتہ داریاں ہیں بلکہ بعض جگہوں پر سرحد کے ایک پار رہنے والے قبیلہ کی سرحد کی دوسری جانب زمینیں بھی ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم

ادارت: کشور مصطفیٰ