1. Inhalt
  2. Navigation
  3. Weitere Inhalte
  4. Metanavigation
  5. Suche
  6. Choose from 30 Languages

معاشرہ

دلائی لاما کی پناہ گاہ دھرم شالا: بے ہنگم پھیلاؤ باعث تشویش

ماضی میں دھرم شالا کبھی صرف بدھ بھکشوؤں کی پناہ گاہ اور چند ہِپی مسافروں کی منزل ہوا کرتا تھا۔ اب ہمالیہ کے دامن میں یہ بھارتی قصبہ بہت پرہجوم اور پرشور ہو چکا ہے۔ اس پر وہاں کے مستقل باشندوں کو بڑی تشویش ہے۔

دھرم شالا کا زیادہ مشہور نام میکلوڈ گنج ہے اور زیادہ تر لوگ اسے اسی نام سے جانتے ہیں۔ وہاں بھی اب وہی ٹریفک جام نظر آتے ہیں اور ہر وقت گاڑیوں کے ہارن سنائی دیتے ہیں جو بھارت کے بہت بڑے بڑے شہروں کی پہچان بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ہر طرف تعمیراتی کام بھی ہو رہا ہے۔ بدبو دار کوڑے کے ڈھیر بھی ہر جگہ نظر آتے ہیں حالانکہ پہلے دھرم شالہ یا میکلوڈ گنج ایسا نہیں ہوتا تھا۔

دھرم شالا آنے والے بدھ زائرین

دھرم شالا میں مقامی وسائل بڑے محدود ہیں۔ ان پر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بہت بڑی تعداد میں وہاں آمد کی وجہ سے اضافی دباؤ ہے۔ یہ بھارتی اور غیر ملکی باشندے اس لیے میکلوڈ گنج کا رخ کرتے ہیں کہ یہ قصبہ بدھ مت کے پیرو کاروں اور دنیا بھر کے تبتی باشندوں کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ وہاں جانے والے غیر ملکیوں میں مختلف ایشیائی ملکوں کے بدھ زائرین اور مغربی ملکوں کے سیاحوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

جن لوگوں کو یاد ہے کہ 1959 میں بھارت نے چین سے فرار ہو کر آنے والے تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما کو دھرم شالا میں پناہ دی تھی، انہیں یہ علم ہے کہ تب ہمالیہ کا یہ چھوٹا سے پہاڑی قصبہ بہت پرسکون ہوتا تھا۔ ایسے بہت سے لوگوں کے لیے آج کا دھرم شالا ایک پھیلتے ہوئے قصبے کے طور پر بہت گندہ اور پرشور ہو چکا ہے۔ خبر ایجنسی اے ایف پی نے دھرم شالا سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ جن لوگوں کو دھرم شالا کے انتہائی پرسکون دن یاد ہیں، ان کے لیے اب یہ قصبہ بیزاری اور پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔

جن لوگوں کو دھرم شالا کے انتہائی پرسکون دن یاد ہیں، ان کے لیے اب یہ قصبہ بیزاری اور پریشانی کا سبب بن رہا ہے

تینزِنگ سونم ایک معروف فلمساز ہیں۔ وہ 35 برس قبل دھرم شالا میں رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے اس قصبے میں کوئی پرائیویٹ گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں، ہر کوئی اس پہاڑی قصبے میں پیدل ہی آتا جاتا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اور ہر کوئی ہر کسی کو جانتا تھا۔ زیادہ تر لوگ تبت سے فرار ہو کر آنے والے ایسے بدھ باشندے تھے جنہوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے وطن کو خیر باد کہہ دیا تھا۔

تب یہ قصبہ باقی ماندہ بھارت اور باقی ماندہ دنیا سے کافی کٹا ہوا تھا۔ جو چند لوگ وہاں جاتے تھے، وہ بدھ زائرین یا یورپی ہِپی ہوا کرتے تھے۔ اب دھرم شالا میں ہوٹلوں، ریستورانوں، پارکنگ ہاؤسز اور کئی منزلہ عمارات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اب اس خطے کا یہ تاثر ختم ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کبھی مذہبی تعاقب سے بچنے والوں کی پناہ گاہ اور روحانی مرکز تھا۔

تینزِنگ سونم کی عمر 53 برس ہے۔ ان کے والدین کا تبت میں دلائی لاما کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ تینزِنگ کے مطابق دھرم شالا کا سب سے بڑا مسئلہ اس قصبے کا بے ہنگم پھیلاؤ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے پریشان کن بات منصوبہ بندی یا قانونی اجازت کے بغیر کی جانے والی تعمیرات ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو دھرم شالا اور وہاں ملنے والا ذہنی سکون دونوں تباہ ہو جائیں گے۔

(ij / mm (AFP