1. Inhalt
  2. Navigation
  3. Weitere Inhalte
  4. Metanavigation
  5. Suche
  6. Choose from 30 Languages

صحت

دانت پیسنا عادت یا بیماری

اضطراب، ذہنی اُلجھن، دبی ہوئی خواہشات یا نفسیات اور روز مرہ زندگی کی پریشانیاں ان سب کا اظہار غیر ارادی طور پر دانتوں کے پیسنے کے عمل سے بھی ہوتا ہے۔

اس بارے میں امراض دندان کے ڈاکٹر اور جرمن پروفیسر ڈیٹمر اُسٹرائش کا کہنا ہے کہ 50 فیصد افراد زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں دانتوں کو پیسنے کی عادت میں مبتلا رہتے ہیں۔ تاہم دانتوں کو پیسنے کا عمل صحت پر بہت سے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

جرمن ماہر کے بقول ’دانتوں کو پیسنے سے نہ صرف ان کی ہموار سطح بالکل کھردری ہو جاتی ہے بلکہ دانتوں کے درمیان دراڑیں سی بھی پڑ جاتی ہیں، یہاں تک کہ دانت جھڑنے تک کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔

دانتوں کے علاج پر بہت بھاری اخراجات آتے ہیں

ایسی کیفیت کے شکار افراد کے جبڑوں میں درد رہنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ سر، گردن، کمر اور شانوں میں مسلسل درد ہونے لگتا ہے اور پیڑو کے حلقے میں بھی تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔ ان تکالیف میں مبتلا اکثر مریضوں کو اس امر کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس وجہ سے ان تکالیف کا شکار ہیں۔ جرمن ایسوسی ایشن فار بائیو فیڈ بیک سے منسلک ہانس یورگن کورن کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کیفیت سے دوچار زیادہ تر افراد کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لیے اس مرض کی جلد تشخیص مشکل ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں،’محض ایسے افراد کے قریب سونے والا فرد ہی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ نیند میں دانتوں کو پیسنے والا شخص کس طرح کی کیفیت میں مبتلا ہے‘۔

دانتوں کی حفاظت نہ کرنے اور غلط استعمال سے ان کی شکل خوفناک ہو سکتی ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض کی تشخیص کے بعد دانتوں کے ڈاکٹرز سب سے پہلے دانتوں کی حفاظت یا جبڑوں کے تحفظ کے لیے خصوصی آلہ استعمال کرتے ہیں۔ جبڑوں کی پوزیشن کو صحیح جگہ پر بٹھانے کے لیے بھی آلات موجود ہیں۔

تاہم جرمن ماہر پروفیسر ڈیٹمر اُسٹرائش اس امر پر زور دیتے ہیں کہ نقائص پیدا ہونے کے بعد دندان سازوں پر انحصار کی بجائے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی دانتوں کے ان نقائص اور دانت پیسنے کی خطرناک عادت کی اصل وجہ جاننے کی کوشش کی جائے۔

Km/aa

DW.DE