1. Inhalt
  2. Navigation
  3. Weitere Inhalte
  4. Metanavigation
  5. Suche
  6. Choose from 30 Languages

حالات حاضرہ

امریکی انتخابی مباحثے پر پاکستان میں رد عمل

امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ڈیموکریٹ اور ریپبلکن امیدواروں باراک اوباما اور مٹ رومنی کے درمیان آخری مباحثے کا ایک اہم موضوع پاکستان بھی تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی امیدواروں کے مابین مباحثے میں پاکستان کے نام کی بازگشت اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ پاکستان امریکی خارجہ پالیسی میں آئندہ بھی سرفہرست مو ضوع ہو گا۔

موجودہ امریکی صدر اور آئندہ انتخاب کے لیے قدرے طاقتور امیدوار باراک اوباما

معروف پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب کے تیسرے اور آخری مباحثے میں پچیس مرتبہ پاکستان کا نام لیا گیا، جس میں سے اکیس مرتبہ ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی نے جبکہ چار مرتبہ ڈیموکریٹ اوباما نے پاکستان کا نام لیا۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق دونوں امیدواروں کا نقظہ نظر اس بات کا بھی عکاس ہے کہ امریکی صدر کسی بھی پارٹی کا ہو، وہ پاکستان سے تعلقات کو ناگزیر سمھجتا ہے۔

پاکستان کے بارے میں اکثر امور پر اوباما اور رومنی میں اتفاق رائے پایا گیا

انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے بارے میں اکثر امور پر اوباما اور رومنی میں اتفاق رائے پایا گیا۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا، ’پاکستان کے حوالے سے دونوں امیدواروں میں، دونوں جماعتوں میں ایک قسم کا اتفاق رائے ہے، خصوصا ڈرون حملوں پر دونوں امیدوار متفق ہیں۔ پھر بار بار پاکستان کے جوہری پروگرام کا ذکر کیا جا رہا تھا اور ایک اور اتفاق رائے جو دونوں امیدواروں میں تھا، جس میں پاکستان کو خطے کا ایک اہم پلیئر مانا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سے کسی قسم کی 'طلاق‘ نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ساتھ مل کر علاقے میں امن لانے کی کوشش کی جائے گی‘۔

موجودہ امریکی صدر اور آئندہ انتخاب کے لیے قدرے طاقتور امیدوار باراک اوباما کے اس بیان کو بھی پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اہمیت دی جا رہی ہے، جس کے مطابق، ’’پاکستان کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا، وہ بھی ایسے کہ جب اس کے پاس سو سے زائد جوہری ہتھیار ہیں اور وہاں فوج اور آئی ایس آئی ہی کی چلتی ہے۔‘‘

امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے تیسرے اور آخری مباحثے میں پچیس مرتبہ پاکستان کا نام لیا گیا

سابق پاکستانی وزیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ امریکی امیدواروں کے درمیان حتمی مباحثے میں پاکستان کا ذکر آنا اہمیت کی بات تو ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کے سیاق وسباق کیا ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا، ’’پاکستان کی اہمیت تو ہے لیکن ایک 'پرابلم ایریا‘ کے طور پر، نہ کہ ایک حلیف کے طور پر۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا تناظر یہ ہے کہ ہمارے بغیر وہ افغانستان سے پر امن اور بہتری کے ساتھ انخلاء نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ڈرون حملے بھی مسئلے کا حصہ ہیں۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی صدارتی امیدواروں کے سامنے پاکستان کی اہمیت مثبت معنوں میں نہیں۔‘‘

سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اندر ایران، شام، افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں بڑتی حد تک ا تفاق پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدارتی امیدواروں کے مباحثے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ڈیموکریٹس یا ریپبلکنز کی خارجہ پالیس میں زیا دہ فرق نہیں۔ تاہم سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ انہیں مٹ رومنی کی نسبت اوباما کا رویہ پاکستان کے بارے میں زیا دہ بہتر لگا ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں