1. Inhalt
  2. Navigation
  3. Weitere Inhalte
  4. Metanavigation
  5. Suche
  6. Choose from 30 Languages

بن غازی کے حملے ميں القاعدہ کا ہاتھ نہيں، لاس اينجلس ٹائمز

پاکستانی فوج کے سابق سربراہ کے خلاف مقدمے کی سفارش

شام کی خانہ جنگی کے اثرات لبنان تک پھيلتے ہوئے

نگراں بينکاری نظام کے ليے فريم ورک رواں سال کے اختتام تک

ملالہ اٹھ پانے ميں کامياب، برطانوی ڈاکٹر

حالات حاضرہ

معاشرہ

  • موڑ

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    موڑ

    مصراتہ میں یہ بچی بھاگتے ہوئے ایک گلی کا موڑ مڑ رہی ہے۔ گزشتہ برس لیبیا کا یہ شہر قذافی نواز فورسز کی شیلنگ سے متاثر ہوا تھا۔ یہاں قذافی کی فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا رہا تھا جس کی وجہ سے شہر کو بہت نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ مصراتہ کی گلیوں میں خوشی اور فخر کے نشان آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

  • آزادی کا راستہ

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    آزادی کا راستہ

    مصراتہ کے ہوائی اڈے اور طرابلس کی سِمت بتانے والے یہ سائنز جنگ کے ایک سال بعد بھی تبدیل نہیں کیے گئے۔ ان پر گولیوں کے نشان واضح ہیں۔ مصراتہ کے ہوائی اڈے پر پروازیں گزشتہ برس اکتوبر میں اس وقت بحال ہو گئی تھیں جب سرت میں لڑائی جاری تھی۔

  • مہم

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    مہم

    جنگ کے خاتمے کے بعد شہریوں سے ہتھیار جمع کرنے کی مہم چلائی گئی، جس کے پوسٹر ابھی تک دارالحکومت طرابلس میں دکھائی دیتے ہیں۔

  • شناخت

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    شناخت

    دو خواتین امازيغيہ کی جھنڈیوں کے قریب سے گزر رہی ہیں۔ امازیغیہ نے ابتدا سے ہی بغاوت کا ساتھ دیا تھا اور وہ بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چار دہائیوں پر مشتمل اقتدار کے دوران قذافی کی کوششوں کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی شناخت نہیں کھوئی۔

  • معمولاتِ زندگی معمول پر

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    معمولاتِ زندگی معمول پر

    بحریہ روم اور دارالحکومت کے شہدا چوک کے درمیان متعدد عمارتیں جدید طرز تعمیر کا عکس پیش کرتی ہیں۔ شان و شوکت کے ان نشانات میں ملک کا سیاسی اور سماجی عدم استحکام بھی دکھائی دیتا ہے، تاہم اس کے ساتھ ہی زندگی کے معمول پر لوٹنے کے آثار بھی واضح دکھائی دیتے ہیں۔

  • تعمیرات

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    تعمیرات

    مصراتہ کی شاہراہ طرابلس بجا طور پر لیبیا میں بغاوت کے عرصے میں مزاحمت کا نشان رہی ہے۔ اب یہاں ملبہ نہیں بلکہ تعمیر نو کی سرگرمیوں کا دور دورہ ہے۔

  • گمشدہ

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    گمشدہ

    مصراتہ کا میوزیم برائے شہدا بغاوت کے دوران ہلاک ہونے والے متعدد شہریوں اور باغیوں کی کہانی بیان کرتا ہے۔ میوزیم کی دیواروں پر ایسے ہی بہت سے لوگوں کی تصاویر لگی ہیں۔

  • شہدا چوک

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    شہدا چوک

    طرابلس کے اس مرکزی علاقے کو بغاوت کے بعد شہدا چوک کا نام دے دیا گیا تھا۔ چند روز قبل لی گئی اس تصویر میں دکھائی دینے والے لوگ خزاں کی ایک شام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

  • نئی صبح

    لیبیا: قذافی کی موت کے ایک سال بعد

    نئی صبح

    قذافی کے طویل اقتدار سے چھٹکارے کے ایک سال بعد، یہ طرابلس کی ایک آزاد صبح کا منظر ہے جس میں ملک کے مستقبل کے خدشات بھی سمٹے ہوئے ہیں۔ استحکام کا راستہ طویل اور مشکل دکھائی دیتا ہے، اس کے باوجود دارالحکومت میں موجود متعدد لوگ بہتر مستقبل کے لیے پرعزم ہیں۔


    مصنف: ندیم گِل /گائیا اینڈرسن، مصراتہ / طرابلس | ایڈیٹر: عاصم سلیم / راب مج

سائنس اور ماحول

  • نشیب و فراز سے عبارت چار عشرے

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    نشیب و فراز سے عبارت چار عشرے

    40 برس قبل 11 اکتوبر کو وفاقی جمہوریہ جرمنی اور چین کے مابین سفارتی تعلقات استوار ہوئے تھے۔ آج یہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ چالیس سال میں انسان کو کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ بظاہر چانسلر میرکل اور وین جیا باؤ بھی اس سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔

  • سفارت کاروں کے مابین قریبی روابط

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    سفارت کاروں کے مابین قریبی روابط

    تصویر میں دکھائی دینے والے Wang Shu چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی سنہوا کے نمائندے تھے۔ 1969ء میں ماؤ زے تُنگ نے انہیں بون بھیجا تھا۔ وہ دونوں ممالک کے مابین ابتدائی مذاکراتی وفد کے قائد بھی تھے۔

  • چین سے متاثر

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    چین سے متاثر

    1975ء میں ہیلموٹ شمٹ چین کا دورہ کرنے والے پہلے جرمن چانسلر بنے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے ماؤ سے ملاقات کی تھی، جو اُس وقت شدید علیل تھے۔ اس موقع پر انہیں ڈینگ سیاؤ پِنگ کو جاننے کا موقع بھی ملا تھا۔

  • سفارتی آداب

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    سفارتی آداب

    چانسلر ہیلموٹ شمٹ اور ان کی اہلیہ لوکی دیوار چین کا دورہ کر رہے ہیں۔ شمٹ کی عمر اس وقت 93 برس ہے اور وہ ابھی بھی چین کے لیے ہمدردانہ جذبات رکھتے ہیں۔

  • جرمنی کے لیے تحفے میں پانڈا

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    جرمنی کے لیے تحفے میں پانڈا

    چین نے جرمنی کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے ایک منفرد انداز اپنایا اور تحفے کے طورپر دو پانڈے دیے۔ 1980ء کی دہائی میں دیے جانے والے یہ پانڈے برلن کے چڑیا گھر میں رکھے گئے تھے۔ جانورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ’پانڈا سفارتکاری‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

  • ڈینگ سیاؤ پِنگ اور اصلاحات

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    ڈینگ سیاؤ پِنگ اور اصلاحات

    بلی کا رنگ سیاہ ہو یا سفید، جب تک وہ چوہوں کا شکار کرے، اسے ایک اچھی بلی کہا جاسکتا ہے۔ ڈینگ سیاؤ پِنگ نے ملک میں ایسے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی تھی، جس پر چینی کمیونزم کی چھاپ تھی۔ 1984ء میں لی گئی جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل اور ڈینگ سیاؤ پِنگ کی ایک یادگار تصویر۔

  • کامیابی کی داستانیں

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    کامیابی کی داستانیں

    1985ء میں شنگھائی میں جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی شاخ کا افتتاح ہوا۔ چین دنیا بھر میں جرمنی کی فوکس ویگن گاڑیوں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

  • سفارتی تعلقات میں سرد مہری

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    سفارتی تعلقات میں سرد مہری

    1989ء میں چین میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کے زبردستی کچلے جانے کے بعد امریکا سمیت کئی مغربی ممالک نے چین کے خلاف پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان میں جرمنی بھی شامل تھا۔ اس دوران دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کچھ عرصے کے لیے سرد مہری آ گئی تھی۔

  • تیز رفتاری سے مستقبل کی جانب

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    تیز رفتاری سے مستقبل کی جانب

    2002ء میں چین، جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایشیا میں جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن گیا۔ اسی سال جرمنی کے اُس وقت کے چانسلر گیرہارڈ شروئڈر اور چینی وزیراعظم ژُو رَونگ جی نے شنگھائی میں ٹرانس ریپڈ ٹرین کا افتتاح بھی کیا تھا۔

  • تبادلہ خیال اور اشتعال انگیزی

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    تبادلہ خیال اور اشتعال انگیزی

    چین کا احتجاج کام نہ آیا اور 2007ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات پر احتجاج کرتے ہوئے بیجنگ حکام نے دونوں ممالک کے مابین حکومتی سطح پر ہونے والے مذاکرات منسوخ کر دیے تھے۔

  • متنوع ثقافتی تبادلہ

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    متنوع ثقافتی تبادلہ

    جرمنی میں غیر ملکی طالب علموں کی سب سے زیادہ تعداد کا تعلق چین سے ہے۔ اس کے علاوہ شہروں کے مابین مختلف سطحوں پر تعاون کے پروگرام بھی تسلسل سے جاری ہیں۔ 1982ء میں جرمن شہر ڈُوئسبرگ اور چینی شہر ووہان نے اس سلسلے کی ابتدا کی تھی تاہم اس دوران آج کل اس طرح کے پچاس سے زائد منصبوبے جاری ہیں۔

  • چین میں روشن خیالی کے فروغ کی کوشش

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    چین میں روشن خیالی کے فروغ کی کوشش

    جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے 2011ء میں چین میں ایک نمائش کا افتتاح کیا۔ The Art of Enlightenment نامی اس نمائش کا مقصد یورپی ثقافت اور حقوقِ انسانی کے تاریخی پس منظر سے متعلق آگہی کا فروغ تھا۔

  • چار تسلی بخش عشرے

    جرمنی اور چین کے سفارتی تعلقات کے چالیس برس

    چار تسلی بخش عشرے

    2012ء میں حکومتی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں جرمنی اور چین نے4.8 ارب یورو کے تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے۔ 1970ء کی دہائی میں تجارتی روابط کی ابتدا ہوئی تھی اور آج اس میں تیس گنا سے بھی زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس موقع پر چانسلر میرکل اور وین جیا باؤ کے مابین سرکاری سطح پر ہونے والی یہ آخری ملاقات تھی۔